جب وہی تو ہے وہی میں ہوں جو پہلے تھے
ہوئی معدوم کیوں وہ جو فرقت تھی کبھی
آج کیوں اتنے حجابات اُبھر آئے ہیں
کھو گئی جانے کہاں وہی الفت تھی کبھی
دل ویراں سے تری یاد مٹی جاتی ہے
ختم ہوتی ہے جو احساس کی دولت تھی کبھی
بُت نئے روز تراشوں میں صنم خانوں میں
دل کے خانے میں تری ایک ہی صورت تھی کبھی
تیرا کہلا کے بھی کیوں غم سےمیں رنجور رہوں
تیری رحمت کا تقاضا ہے کہ مسرور رہوں
کر عطا سُوز مجھے وہ جو کبھی بخشا تھا
کھول دے آنکھ وہی جس نے تجھے دیکھا تھا
مجھ سے گمراہ کو پھر راہ دکھا دے اپنی
آشکارا ہو جو محفل میں مقام اپنا تھا
اپنی رحمت سے مری فکر کو روشن کر دے
چشم آلودہ کو اب دیدہ ء بینا کر دے
No comments:
Post a Comment